اگرچہ ہار ہی ڈاکوؤں کا مقدر ہے لیکن شاید ان کی یہ خوبی ان کو بچا لے کہ وہ ہار مان کر معافی چاہتے ہیں

Dakuon Ke Liye Haar

 


اگرچہ ہار ہی ڈاکوؤں کا مقدر ہے لیکن شاید ان کی یہ خوبی ان کو بچا لے کہ وہ ہار مان کر معافی چاہتے ہیں

  


ڈاکو گلاب جسکانی نے پریس کلب رادھن کے نام خط میں لکھا ہےوزیر اعظم ہمیں سرِعام معاف کریں ورنہ․․․․“ ایک افسر کی کوٹھی پر ملاقاتی آیاچوکیدار نے بتایا
سر!کوئی احمد علی ملنے آیا ہے۔
کون احمد علی؟
کہتا ہے صاحب کو سلام کرنے آیا ہوں۔
سلام کرنے آیا ہے!فقرہ جانا پہچانا ہے اندر بلا لو۔

سو ڈاکو گلاب جسکانی کا فقرہ بھی ہمارے لئے جانا پہچانا ہے۔جب بھی کوئی مانگنے والا ہماری طرف بڑھنے لگے ہم فوراً کہتے ہیںبھئی معاف کرنا۔معافی آج کل اس قدر اہمیت حاصل کرتی جا رہی ہے کہ لگتا ہے سکولوں میں جہاں پہلے بچوں کو چھٹی کی درخواست لکھنا سکھایا جاتا تھا اب وہاں معافی نامہ سکھایا جائے گا۔

دلدار بھٹی کے بارے میں ہے کہ وہ جب کسی سے زیادتی کرتا تو پھر اس سے معافی ضرور مانگ لیتا اس لئے جب کسی کی بے عزتی کرتا تو دل کھول کر کرتا کہ بعد میں معافی تو مانگ ہی لینی ہے۔

اس لئے اب ڈاکوؤں کو چاہئے کہ دل کھول کر ڈاکے مار لیں کیونکہ معافی تو لے ہی لینی ہے۔پہلے معافی مانگنے کے دیسی طریقے تھے کہ اپنی پگ کسی کے پاؤں میں رکھنا پڑتی گویا معافی مانگنے کے لئے پہلے بازار جا کر پگ کا کپڑا خریدو۔انگریزوں نے جہاں کئی اور ایجادات کیں ان میں سے ایک لفظ سوری ہے بڑی سے بڑی غلطی کرکے آپ یہ کہہ دیں تو دوسرا ناراض ہونے کی بجائے اُلٹا آپ کا شکریہ ادا کرے گا۔
میں معافی مانگنے کو آج تک کمزوری اور بزدلی سمجھتا رہا۔اب پتہ چلا کہ آج کل ہر چیز اپنے زور بازو پر لینا پڑتی ہے ۔یہاں تک کہ معافی تک طاقت سے ملتی ہے۔اسی لئے ڈاکو ساتھ ورنہ!لگا کر معافی بھی تاوان کی طرح وصول کرنا چاہتے ہیں۔ورنہلگانے سے لگتا ہے ڈاکو پڑھے لکھے تو ہیں مگر نقل مار کر پاس نہیں ہوئے کیونکہ نقل کے لئے عقل چاہئے اور جو نقل سے پاس ہو اس کا عقلمند ہونا مسلمہ ہےلیکن لگتا ہے کہ وہ خود سے پاس ہوئے ہیں تب ہی خود سر ہیں۔
ورنہ یہ کہتےمعاف کر دیں ناں!“ یاسوریکہتے۔
ہمارے ایک دوست نے اپنی سیکرٹری سے شادی کی۔اب وہ اس کی بیوی ہے اور یہ اس کا سیکرٹری ہے۔کہتا ہےازدواجی زندگی تو چلتی ہی معافی پر ہے۔کبھی خاوند کو چاہئے کہ وہ بیوی سے معافی مانگ لے اور کبھی بیوی کو چاہئے کہ خاوند کو معاف کر دے۔
ایمرسن کہتا ہےآج تک کسی سیانے بندے نے معافی نہیں مانگی۔
لیکنفکہتا ہے کہ یہ بیان ایمرسن نے شادی سے پہلے دیا تھاورنہ وہ کہتا ہمیشہ سیانے بندے نے معافی مانگی۔میرے دوستفنے وعدہ کیا تھا جب غلط بات کروں گا معافی ضرور مانگوں گا۔سو جب سے وہ سیاست میں آیا ہے وہ اپنی گفتگو کا آغاز ان فقروں سے کرتا ہےمعافی چاہتا ہوںاگرچہ حکومت کو چاہئے کہ ہر سال کے آخر میں معافی کلیرنس سیل لگایا کرے تاکہ ڈاکوؤں اور کالا دھن رکھنے والوں کومعزز شہریبننے کا موقع مل سکے۔
ٹی وی اور اخبارات میں اشتہار دیئے جائیںگیارہ مہینے تہاڈے اک مہینہ ساڈایعنی اس ماہ ہمارے پاس آ کر معافی وصول کریں۔ایک ایسے ڈاکو کے باپ کو مجسٹریٹ نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ آخر اپنے بیٹے کی اصلاح کیوں نہیں کرتے؟اسے کیوں نہیں بتاتے کہ صحیح اور درست کیا ہے؟اس نے کہابتاتا ہوں جناب عالی!یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے مگر اس کے باوجود پکڑا جاتا ہےاگرچہ ہار ہی ڈاکوؤں کا مقدر ہے لیکن شاید ان کی یہ خوبی ان کو بچا لے کہ وہ ہار مان کر معافی چاہتے ہیں۔
ایک بار ایک بیوی سے اس کے خاوند نے پوچھا:
ڈارلنگ آپ کو پتہ ہے مجھے تمہاری کون سی چیز پسند ہے؟
میرے بال؟
نہیں۔
میرا سراپا؟
نہیں
میری فہم و فراست
نہیں
میں ہار گئی
بس یہی مجھے پسند ہے۔

Comments